عمران ریاض کے وکیل میاں علی اشفاق نے بھی ان کی بازیابی کی تصدیق کی ہے تاہم یہ معمہ اب تک حل نہیں ہو سکا کہ اتنا عرصہ عمران ریاض نے کہاں اور کن حالات میں گزارا۔
وہ کیا حالات تھے جن کے تحت عمران ریاض خان گرفتار ہوئے اور پولیس کے بیان کے مطابق ان کی رہائی بھی عمل میں آئی مگر جیل سے قدم نکالتے ہی وہ لاپتہ کیسے ہوئے۔ بی بی سی نے عمران ریاض کے اہلخانہ اور ساتھیوں سے بات کر کے یہ سمجھنے کی کوشش کی تھی۔
وہ دوسرا ہاتھ اُن کے کندھے پر رکھتے ہوئے ویگو کی جانب چلنے کا اشارہ کرتا ہے۔ پھر یہ تمام افراد گاڑی میں بیٹھ جاتے ہیں اور سیاہ ویگو اور اس کے پیچھے کھڑی سفید کار نامعلوم مقام کی جانب روانہ ہو جاتی ہیں۔ عمران ریاض خان کے ان قریبی ساتھیوں نے بھی بی بی سی سے بات کی جو اس وقت اُن کے ہمراہ تھے جب انھیں سیالکوٹ ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا۔ان کے ایک ساتھی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ عمران ریاض خان کی گرفتاری کے وقت پولیس کے پاس گرفتاری کے وارنٹ موجود نہیں تھے، جس کی تصدیق بعدازاں لاہور ہائیکورٹ کے روبرو متعلقہ تھانے کے ایس ایچ نے بھی کی۔
اس واقعے کے کچھ دن بعد یعنی 16 مئی کو آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے بی بی سی کی آسیہ انصر کو بتایا تھا کہ ’عمران ریاض کو کچھ دن قبل گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا جہاں انھوں نے تحریری بیان میں اچھے رویے کی یقین دہانی کروائی جو عدالت میں بھی پیش کر دی گئی ہے۔‘عمران ریاض کیس: پولیس کا کیا موقف رہا؟عمران ریاض خان کے والد محمد ریاض نے اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے عدالت میں درخواست دائر کی تو اس میں پنجاب حکومت سمیت دیگر متعلقہ اداروں کو فریق بنایا...
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’تشویشناک بات یہ ہے کہ عمران ریاض کے معاملے میں کچھ غیر ملکی نمبرز بھی استعمال ہوئے، جو نمبرز استعمال ہوئے وہ افغانستان کے ہیں اور پنجاب پولیس کے پاس افغانستان کے نمبرز ٹریس کرنے کی صلاحیت نہیں۔‘