مصنف:یاسمین پرویزقسط:28اساتذہ کے مابین جب بحث نے طول پکڑا تو وہ بھی شامل گفتگو ہوئی ”میرے خیال میں شاگرد سے شاکی ہونے کے بجائے استاد کو اپنی شخصیت کا جائزہ لینا چاہیے اور اپنی خامیوں کو تلاش کرنا چاہی
خاموش رہنا ہی وقت کا تقاضا تھا،پنے اندر وہ تمام صفات پید اکرنی ...مجھے اور میرے چھوٹے بھائی کو ریل گاڑیاں شروع سے ہی بہت پُر کشش ...
خاموش رہنا ہی وقت کا تقاضا تھا،پنے اندر وہ تمام صفات پید اکرنی چاہئیں جو بات کو مؤثر بنانے میں مددگار ہوں، وہ خاموشی سے آگے بڑھ گئیاساتذہ کے مابین جب بحث نے طول پکڑا تو وہ بھی شامل گفتگو ہوئی ”میرے خیال میں شاگرد سے شاکی ہونے کے بجائے استاد کو اپنی شخصیت کا جائزہ لینا چاہیے اور اپنی خامیوں کو تلاش کرنا چاہیے۔ میرے خیال میں استاد کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی گفتگو اور شخصیت کو اتنا پرکشش اور پراثر بنائے کہ شاگردوں کے دلوں کو مسخر کر لے۔ میرا تو اس سلسلے میں بڑا کامیاب تجربہ ہے۔“ ایمن کا پراعتماد...
ایمن کا جی چاہا کہ وہ کہہ دے کہ استاد کو پہلے اپنا مقام پہچاننا چاہیے۔ اسے اپنے اندر وہ تمام صفات پید اکرنی چاہیئں جو اس کی بات کو مؤثر بنانے میں مددگار ہوں۔ سب سے پہلی بات تو آواز کا دلنشیں ہونا ہے۔ آواز میں اگر دم خم نہ ہو یعنی باریک اور مدھم ہو تو کمرہ جماعت کا ماحول کبھی ایسے استاد کے قابو میں نہیں آتا۔ دوسری ضروری بات اپنے مضمون پہ مکمل دسترس رکھنا اور جدید دور کے بدلتے ہوئے تقاضوں سے اسے ہم آہنگ کرنا اور تیسری اور سب سے ضروری بات اپنے مافی الضمیر کو دلچسپ پیرائے میں مہارت اور خوش اسلوبی...
آج جب وہ کلاس روم میں اپنا لیکچر ختم کر چکی تو سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ طالبات کی ذہانت اور یادداشت سے جہاں وہ خوش اور مطمئن تھی، وہاں وہ اس کا برملا اظہار کرتے ہوئے انہیں شاباش بھی دے رہی تھی مگر جب ہادیہ کی باری آئی تو اسے یکدم یہ احساس ہوا کہ وہ بہت زیادہ گھبرا گئی ہے اور ہلکا رہی ہے۔ ایمن نے بڑے شفقت آمیز لہجے میں اپنا سوال دہرایا، مگر وہ جواب نہ دے پائی۔ اس نے اندازہ کر لیا کہ وہ جواب جانتی ہے مگر بیان نہیں کر پا رہی۔ وہ خاموشی سے آگے بڑھ گئی اور پھر جب کلاس ختم ہونے کے بعد اس نے اسے...
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔انتہائی پڑھی لکھی ڈاکٹر خاتون جو فقیرنی بننے پر مجبور ہو گئی
پاکستان تازہ ترین خبریں, پاکستان عنوانات
Similar News:آپ اس سے ملتی جلتی خبریں بھی پڑھ سکتے ہیں جو ہم نے دوسرے خبروں کے ذرائع سے جمع کی ہیں۔
میرے نانا نے گھر میں اناج پیسنے کے لیے خراس لگا رکھا تھا،۔نانا اکثر مجھے اس ...مصنف:محمد سعید جاویدقسط:57میرے نانا نے اپنے گھر میں اناج پیسنے کے لیے ایک خراس لگا رکھا تھا، جس میں آٹا پسوانے والا اپنے بیل جوت کر آٹا پیستا اور جاتے وقت خراس کے کرائے کی مد میں وہاں رکھی ہوئی ایک بوری میں کچھ آٹا ڈال جاتا تھا۔ یہ کام زیادہ تر صبح صبح گرمی شروع ہونے سے پہلے ہوتا تھا۔ جہاں پر بیل جوتے جاتے وہاں ایک بیٹھنے کی چھوٹی سی کرسی بنی ہوئی تھی۔نانا اکثر مجھے اس پر بیٹھ کر بیلوں کے ساتھ ساتھ گھومنے کی اجازت دے دیتے، صبح صبح ٹھنڈی ہوا میں بڑا مزہ آتا تھا مگر جیسے ہی دن چڑھتا اور گرمی بڑھ جاتی یا مجھے کوئی اور ”ضروری“ کام یاد آ جاتا تو میں چھلانگ مار کر اتر جاتا اور نئی سرگرمیوں میں مبتلا ہو جاتا۔یہ شوق بہت دیر تک رہا پھر نانا رخصت ہوئے تو ان کا خراس بھی اجڑ گیا۔ بعد ازاں گاؤں میں روایتی انجن والی چکیاّں لگ گئیں، جو ہر وقت سر یلی آواز سے گھُگھو بجاتی رہتی تھیں، جس سے نہ صرف ایک رومانوی سا ماحول بنتا بلکہ گونجتی ہوئی یہ آواز گاؤں کے زندہ ہونے کی علامت بھی ہوتی تھی۔ اس خوبصورت آواز کے بغیر گاؤں خالی خالی اور اداس سا لگتا تھا۔شام کو اس کا گھُگھو اتار کر رکھ لیتے تھے تاکہ لوگوں کی نیند نہ خراب ہو اور یوں پھُس پھُس کرتا انجن رات گئے تک چلتا رہتا۔ دیس نکالاایک روز ابا جان کا خط آیا کہ ان کی تر قی ہو گئی ہے اور یہ کہ اب انھیں گھر بھی مل گیا ہے اس لیے انھوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بچے اب کراچی منتقل ہو جائیں گے اور دادا، دادی اور پھوپھی گاؤں میں ہی رہیں گے۔جب یہ سُنا تو پہلے تو یوں لگا کہ شاید یہ کسی اور کی بات ہو رہی ہے، جب یقین ہو گیا کہ ہمیں ہی جانا ہے تو بڑا دکھ ہوا کہ سب ساتھی چھوٹ جائیں گے، آنسو بھر آئے لیکن آنسوؤں سے بھلا اتنے بڑے فیصلے بدلتے ہیں۔لہٰذا ہدایت کے مطابق بھرپور تیاریاں شروع ہو گئیں۔ سب سے پہلے ہمارے لیے قدرے بہتر کپڑے تیار کروائے گئے دونوں بھائیوں کے لیے شلواریں، پاجامے اور قمیضیں بنوائی گئیں جو اس بات کا ثبوت تھا کہ وقت آ گیا ہے کہ اب ہمیشہ کے لیے دھوتی کو خیرآباد کہہ دیا جائے، دھوتی میں ایک دو قباحتوں کے سوا بڑا کچھ تھا۔یہ بہت ہی آسان، ہوادار اور اچھا پہناوا تھا لیکن دو چیزیں سخت تکلیف دہ تھیں، ایک تو وہ گرہ جو میری ماں پیچھے باندھ دیا کرتی تھیں کہ یہ اپنی جگہ قائم رہے اور کھل نہ جائے جب کہ ہماری بھی خواہش تھی کہ ہم بھی بڑوں کی طرح اس کے لڑوں کا کچھ
مزید پڑھ »
افغانستان میں 6.2 شدت زلزلے کے جھٹکےزلزلے کا مرکز افغانستان کے جنوب مشرقی علاقے میں تھا، زلزلہ پیما مرکز
مزید پڑھ »