کراچی کے ’سیاسی جرائم یا مجرمانہ سیاست‘ کے انتہائی پراسرار کردار شعیب خان کو جانتے تو شاید بہت ہی کم لوگ ہوں گے مگر پروفائل کا عالم یہ تھا کہ شعیب خان کے کاروبار پر ہاتھ ڈالنے کے لیے صوبے کے اُس وقت کے گورنر کو ملک کے فوجی صدر اور آرمی چیف تک جانا پڑا تھا اور آئی ایس آئی سربراہ کو کراچی بھیجا گیا...
شعیب خان: کراچی انڈر ورلڈ کا وہ کردار جس کے دبئی تک پھیلے ’جوئے کے نیٹ ورک‘ پر ہاتھ ڈالنے کے لیے گورنر کو آرمی چیف تک جانا پڑااسی زمانے میں لیاقت آباد میں بھی ذاتی جھگڑے کے دوران کوئی شخص قتل ہوا اور پولیس کا خیال تھا کہ یہ قتل بھی شعیب خان نے کیا ہے۔ پھر شعیب نے اور بھی کئی قتل کیےگولی لگتے ہی گردن سے خون کا فوّارہ اُبَل پڑا۔ حلق میں بھر جانے والے خون نے سب انسپیکٹر غلام دستگیر کو دوسری سانس لینے تک کا موقع نہیں دیا۔ حملہ تھا ہی اتنا شدید کہ شعیب خان کی حفاظت پر مامور چار پولیس اہلکاروں میں سے...
اُس روز بھی پولیس وین سے بہتے ہوئے خون سے پتا نہیں چل رہا تھا کہ یہ ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کا ہے یا زخمی ہو کر بچ جانے والے شعیب خان کا۔ اس چائے خانے پر علاقے کے ایک پرانے مکین بزرگ نے کئی برس قبل مجھے بتایا کہ شعیب خان ’نوعمری میں بلاوجہ ہی لوگوں سے الجھ جایا کرتے تھے۔ تھوڑا مزاج کا گرم تھا۔ اندازہ تو اسی زمانے میں ہوتا تھا کہ یہ سیدھی سادی زندگی نہیں گزارے گا۔‘
’جُوا شعیب خان کے لیے نیا ہرگز نہیں تھا کیونکہ یہ کام شعیب کے والد اختر علی خان برسوں سے کر رہے تھے۔‘ خالد شہنشاہ بے نظیر بھٹو کے ذاتی محافظین میں شامل رہے اور بے نظیر کے قتل کے وقت بھی اُن کے ساتھ تھے۔ پولیس، تھانہ، کچہری، مقدمے یہ سب شعیب خان کی طرح خالد شہنشاہ کے لیے بھی روزمرہ کی بات تھی۔ بی بی سی اردو کی 27 جنوری 2005 کی اشاعت میں نامہ نگار اعجاز مہر نے بتایا کہ اُس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ ارباب رحیم نے دعویٰ کیا کہ صوبے کی پولیس قیادت کے بعض اعلیٰ ترین افسران کا شعیب خان سے تعلق تھا۔
فیاض خان نے بتایا کہ ایسے ہی ایک دشمن نے موقع دیکھ کر ایک بار جیل میں اسلم ناتھا پر حملہ کر دیا۔ اب یہ محض اتفاق تھا یا قسمت، کہ شعیب خان بھی اُس وقت وہیں موجود تھے۔ اسلم ناتھا کا قتل 13 جون 1995 کو ہوا۔ بی بی سی اردو نے 27 جنوری 2005 کی اشاعت میں بتایا کہ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ شعیب خان اسلم ناتھا کہ قتل میں ملوث تھے۔شہر کے ایک سابق پولیس چیف نے بتایا کہ ’یہ وہ زمانہ تھا کہ پہلے تو انڈیا میں جُواریوں نے کرکٹ میچ میں جُوئے کی ’بک‘ متعارف کروائی۔ فوراً ہی فیشن کراچی بھی پہنچ گیا۔ یہاں بھی نامی گرامی جُواری بُکی بن گئے تو کراچی انڈر ورلڈ نے بھی بک کے ذریعے کرکٹ سے منسلک جوئے کو آسمان تک پہنچا دیا۔ یہ کراچی انڈر ورلڈ بزنس ایمپائر کا نیا وینچر...
ردّعمل جاننے کے لیے میرے رابطہ کرنے پر ایم کیو ایم کے سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا کہ ’یہ حقیقت ہے کہ تنظیم میں کچھ ناپسندیدہ عناصر ضرور آئے تھے مگر اُن کی غیر قانونی سرگرمیوں کا علم ہونے پر انھیں ایم کیو ایم سے خارج کر دیا گیا تھا۔ اُن میں سے بعض افراد کے بارے میں ہم بھی سنتے تھے کہ وہ جا کر شعیب خان سے مل گئے ہیں لیکن شعیب خان کی کسی بھی غیر قانونی سرگرمی، یا اُن کے کسی کام دھندے سے ایم کیو ایم کا کوئی لینا دینا کبھی نہیں...
میمن سیٹھوں نے جو نقشہ کھینچا اس سے شعیب کو سمجھ میں آ گیا کہ اگر کام، دھندا، طاقت اور پیسہ بڑھانا ہے تو داؤد ابرہیم تک جانا ہو گا جو اُس وقت دبئی میں مقیم تھے۔ گوگا، داؤد ابراہیم کے بھی دوست تھے۔ داؤد ابراہیم کی پوچھ گچھ پر شعیب نے بتایا کہ گوگا دراصل داؤد ابراہیم کے بارے میں ایسی باتیں کررہے تھے جو اُن سے برداشت نہیں ہوئیں تو انھوں نے گوگا کو قتل کر دیا۔
نیوز لائن کے مطابق بھولو ’کانٹریکٹ کلر‘ تھے۔ شعیب خان کی جانب سے ’سپاری‘ دیے جانے پر بھولو نے کوشش تو کی اور راجن کو ڈھونڈ کر حملہ بھی کروا دیا مگر راجن بچ نکلے لیکن اُن کے میزبان روہت ورما ہلاک ہو گئے۔ حیرت انگیز طور پر جوئے کا یہ اڈہ سندھ میں پاکستانی فوج کے صدر مقام یعنی کور کماندڑ سندھ کے دفتر کے عین عقب میں ہاکی کلب آف پاکستان کے قریب واقع پاکستانی اخبار اُمت کے دفتر کی عمارت میں ایک علیحدہ حصے میں بنا۔
12 اکتوبر 1999 کو نواز شریف کی دوسری حکومت گرا کر فوجی صدر جنرل مشرف اقتدار پر گرفت مضبوط کر چکے تھے اور اُن کی سب سے بڑی اتحادی الطاف حسین کی جماعت ایم کیو ایم تھی۔ شعیب خان کے ایک قریبی ساتھی نے کئی برس قبل جیل کے ایک دورے کے دوران مجھے بتایا کہ ’شعیب خان تو یار ماری پر اتر آئے تھے اور یہی اُن کے زوال کی وجہ بنی۔‘حاجی ابراہیم بھولو سنہ 1990 تک کراچی میں پیپلز پارٹی کی طلبا تنظیم پی ایس ایف کے کارکن رہ چکے تھے۔ غصّہ ور اور جارحانہ رجحان کے حامل بھولو کے بارے میں پاکستانی حکام کا دعویٰ رہا ہے کہ وہ پی ایس ایف کے عسکری بازو کا حصّہ تھے پھر مرتضیٰ بھٹّو سے منسوب تنظیم ’الذوالفقار‘ سے وابستہ رہے اور پھر جنوبی افریقہ میں منشیات، ہنڈی حوالہ، سمگلنگ اور دیگر...
میرے، بھولو اور شعیب خان کے ایک مشترکہ دوست اور ایک سابق طالبعلم رہنما نے بتایا کہ ’یہاں کہ کچھ لوگ داؤد ابراہیم تک جا پہنچے۔‘ بھولو کی گمشدگی کے بعد چوہدری اسلم اور راؤ انوار جیسے افسران کا اندازہ تھا کہ بھولو قتل کر دیے گئے ہیں۔ اِن پولیس افسران کو شبہ تھا کہ بھولو کے قتل میں 100 فیصد شعیب خان کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔
سینٹرل پولیس آفس کراچی میں 2009 تک تعینات رہنے والے ایک اعلیٰ افسر نے مجھے بتایا ’معاملہ چوہدراہٹ کا تھا، طاقت اور پیسے کا۔ ایک وقت ایسا آیا تھا کہ شعیب کا نام بھتّے سے بھی جڑنے لگا۔‘ یہ تو پتا نہیں چل سکا کہ پہل کس طرف سے ہوئی مگر جب شعیب خان رینجرز اہلکاروں اور اپنے مسلح حامیوں کے ساتھ عدالت کے احاطے میں داخل ہوئے تو بھولو کے حامیوں اور شعیب کے ساتھیوں میں تصادم ہو گیا۔
یہ سب ہوا تو شعیب خان کو بھی احساس ہو گیا کہ باہر کی دنیا میں چاروں طرف اتنے مخالفین اور دشمنوں کی موجودگی خطرناک ہو سکتی ہے اور جیل کو محفوظ سمجھتے ہوئے شعیب خان نے 14 جون 2001 کو خود کو حکام کے حوالے کردیا۔حکام نے شعیب خان کو لانڈھی جیل میں رکھنے کا فیصلہ یہی سوچ کر کِیا تھا کہ وہاں شعیب قدرے محفوظ رہیں گے مگر چند ہی ماہ میں شعیب خان پر دشمنوں نے دوسرا وار کیا۔
حملے میں شعیب خان اور وین میں سوار کئی پولیس اہلکار شدید زخمی ہوئے جبکہ شعیب خان کو لے جانے والی وین میں سوار غلام دستگیر سمیت چاروں پولیس اہلکار تو موقع پر ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پیپلز پارٹی رہنما منور سہروردی، اپنی چئیرپرسن بے نظیر بھٹو کے انتہائی با اعتماد قریبی ساتھی اور چیف سکیورٹی افسر بھی تھے۔ جب شعیب خان، منور سہروردی سے الجھے تب کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی سے اتنا بڑا جھگڑا مول لے سکتے ہیں۔
میر مرتضیٰ بھٹو کے یہ حامی عاشق کھوسو اور نیاز وغیرہ سمجھتے تھے کہ اس سب کچھ میں انسپیکٹر ذیشان کاظمی مرکزی کردار رہے تھے۔شعیب خان کا منور سہروردی سے جھگڑا اپنی جگہ تھا مگر زیادہ غصہ اس بات پر تھا کہ وہ بھولو کے دوستوں کے حامی تھےجس کراچی آپریشن کا رُخ 1992 میں الطاف حسین کی ایم کیو ایم کی جانب مُڑ گیا تھا، اُس کے سب سے نامور کردار انسپیکٹر ذیشان کاظمی تھے۔ اگرچہ ذیشان کاظمی کے قتل پر شبہے کی انگلی ایم کیو ایم ہی کی جانب اٹھی مگر کئی سال بعد گرفتار ہونے والے ملزمان کی تفتیش سے راز کھلا کے حقیقت...
پولیس افسر راؤ انوار نے بھی تصدیق کی کہ ’منور سہروردی اور ذیشان کاظمی دونوں کے قتل میں سو فیصد شعیب خان کا ہاتھ تھا۔‘مخالفین ایک ایک کر کے شعیب خان کے خلاف صف آرا ہونے لگے اور تمام تر تعلقات کے باوجود بھی شعیب خان کے خلاف مقدمات پر مقدمات تو درج ہوتے رہے مگر کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہو رہی تھی۔ دوسری جانب گورنر سندھ کی سربراہی میں صوبائی انتظامیہ نے شعیب خان کے گرد گھیرا تنگ کرنا تو چاہا مگر ہو نہیں سکا۔
ڈاکٹر عشرت العباد نے کہا کہ ’جنرل مشرف نے افسر کو ہدایت کی آپ خود جائیں اور تمام ریاستی مشینری اور تمام متعلقہ افسران و محکمہ جات کو بالکل واضح ہدایات دیں کہ کسی کو بھی ریاست یا حکومت کی پشت پناہی یا سرپرستی حاصل نہیں۔ کوئی جرائم میں ملوث ہوتا ہے تو اس کے خلاف مکمل قانونی کارروائی ہو گی۔‘ حالات اتنی تیزی سے بگڑے کہ بھولو کیس میں طبّی بنیادوں پر جیل سے ضمانت پر رہا ہوتے ہی شعیب خان نے کراچی سے نکل کر روپوش ہو جانے میں ہی عافیت جانی مگر ریاست بھر کے ادارے اُن کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ابھی یہ سب کچھ چل ہی رہا تھا کہ 29 دسمبر 2004 کو کراچی کی رپورٹنگ کرنے والے تقریباً تمام قومی ذرائع ابلاغ سمیت انٹرنیشنل میڈیا نے ایک چونکا دینے والی خبر دی۔ یہ پنجاب کے شہر لاہور سے شعیب خان کی گرفتاری کی خبر...
ایس ایس پی عرفان بہادر اب کراچی کے ضلع شرقی میں پولیس کے سربراہ ہیں اور کافی عرصے پہلے مجھ سے گفتگو میں تصدیق کر چکے ہیں کہ شعیب خان کو گرفتار کرنے کے لیے وہ بھی چوہدری اسلم کے ہمراہ لاہور پہنچے تھے مگر جب عرفان بہادر نے اس سے زیادہ کچھ بھی بتانے سے گریز کیا تو لاہور کے ایک کرائم رپورٹ نے میری مدد کی۔
’مگر مسئلہ یہ تھا کہ اگر لاہور سے بذریعہ ہوائی جہاز لایا جاتا تو ٹکٹ تو شعیب خان کے نام سے بنتا اور خبر پھیل سکتی تھی۔ ریل سے بھی شعیب خان کو کراچی لے جانا حکام کو محفوظ نہیں لگ رہا تھا۔ اب ایک ہی طریقہ باقی بچتا تھا اور وہ تھا بذریعہ سڑک یعنی گاڑی سے کراچی تک کا سفر۔‘ ڈان کی 28 جنوری 2005 کی اشاعت کے مطابق شعیب کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے مردہ خانے منتقل کیا گیا جہاں اسے رات گئے تک رکھا گیا اور دوپہر کو ایک جوڈیشل مجسٹریٹ ہسپتال پہنچے لیکن اُن کا کہنا تھا کہ معاملہ اُن کے دائرۂ عمل میں نہیں آتا۔
تقریباً سب نے ہی شعیب خان کے خاندان کا یہ الزام دہرایا کہ انھیں جیل میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ قتل کیا گیا۔ شعیب خان کی پُر اَسرار موت پر آفاق احمد کے اس موقف پر کہ ’یہ قتل تھا، جو متحدہ کی فرمائش پر کیا گیا‘ پارٹی کا ردعمل لینے کے لیے میں نے سینیٹر فیصل سبزواری سے بات کی۔ لیکن پھر شعیب خان کے خاندان نے اُن کی اچانک، پراسرار اور متنازع موت پر عدالتی کارروائی یا قانونی چارہ جوئی کیوں نہیں کی؟
تو اس سیریز کی اگلی قسط میں شعیب خان کی وجہ سے قتل ہونے والے ایک مقتول کے خاندان سے آپ کی ملاقات ہو گی۔ اگلے ہفتے اِن ہی صفحات پر۔۔۔
پاکستان تازہ ترین خبریں, پاکستان عنوانات
Similar News:آپ اس سے ملتی جلتی خبریں بھی پڑھ سکتے ہیں جو ہم نے دوسرے خبروں کے ذرائع سے جمع کی ہیں۔
یہ والی دال کھائیں، سو سالہ زندگی پائیںطبِ نبوی میں ایک مخصوص دال کا ذکر ملتا ہے جس کا سفوف انسان کے ناخن سے لے کر سر کے بال تک کے لیے کسی جادوئی ٹانک سے کم نہیں۔
مزید پڑھ »
فلائی دبئی کا عید تعطیلات کے نئے پیکیجز کا اعلانفلائی دبئی نے سیاحوں کے لیے عیدالفطر کی تعطیلات کے لیے نئے پیکیجز کا اعلان کر دیا ہے جس میں راؤنڈ ٹرپ اور چار راتوں کا ہوٹل میں قیام شامل ہے۔
مزید پڑھ »
کیمو تھراپی کے بجائے کینسر کا نیا طریقہ علاجبرطانیہ میں پھیپھڑوں کے کینسر کے علاج کیلئے نئے طریقہِ علاج پر عمل کیا جارہا ہے جس سے مریض کو اسپتال نہیں جانا پڑتا اور کیموتھراپی کے برعکس
مزید پڑھ »
غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے قریب ہیں ،امریکی وزیرخارجہامداد کی ترسیل کے لیے غزہ تک سمندری پل کا کام 2 ہفتوں تک شروع ہوجائے گا، انٹونی بلنکن
مزید پڑھ »
شان مسعود نے ٹی20 کو ٹیسٹ کرکٹ بنا ڈالاکراچی کنگز کے کپتان نے اب تک کھیلی گئی اپنی 50 فیصد بالز ضائع کردیں
مزید پڑھ »
وزیراعظم کی جانب سے رمضان میں عوام کے لئے بڑا ریلیفاسلام آباد : وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر یوٹیلیٹی اسٹورز کو افطاری کے بعد رات 10 بجے تک کھلے رکھنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔
مزید پڑھ »