یہ مضمون طاہر وزیر آبادی کے زندگی، کارناموں اور ادبی خدمات پر مبنی ہے۔ ان کے ساتھ ان کے تعلقات اور ان کے فیصال کے بعد ان کی وفات کے موقع پر ہم دکھ اور ان کے شہری و ادبی گھر کی محبت اور غم کا اظہار کرتے ہیں۔
وزیر آباد کا ذکر آتے ہی بابائے صحافت مولانا ظفرعلی خاں، علامہ صائم کرنالی، منو بھائی، سلیم کاشر، مولانا عبدالغفور، عطاء الحق قاسمی، شفقت تنویر مرزا، عرفان اللہ راجا، شریف فیاض وزیرآبادی اور مدثر اقبال کے اسمائے گرامی سے اس کی کہکشاں جگمگانے لگتی ہے۔ طاہر وزیرآبادی جن کی جنم بھومی گمرولہ گاؤں، جو قصبہ درمان (تحصیل ظفر وال ضلع نارو وال) سے متصل ہے۔ جہاں وہ 1960 میں چوہدری برکت علی کے ہاں پیدا ہوئے۔ وہ 1970 میں تحصیل وزیرآباد ضلع گوجرانوالہ میں رہائش پذیر ہوئے۔ انھوں نے 1977میں گورنمنٹ پبلک
ہائی اسکول وزیر آباد سے میٹرک کا امتحان پاس کیا،جب کہ 1979میں گورنمنٹ مولانا ظفر علی خاں ڈگری کالج وزیرآباد سے ایف اے کی ڈگری حاصل کی، بعدازاں شعبہ صحافت سے منسلک ہوگئے۔ کالم نگاری اور تجزیہ نگاری ان کی مرغوب غذا تھی۔ ان کے اُردو میں چند کالم ایک اردو روزنامہ میں پڑھنے کو ملے مگر ان کے زیادہ تر کالم پنجابی زبان میں ہمیں ایک اخبار میں پڑھنے کو ملتے۔ ان کے کالم ادبی، سیاسی، سماجی اور اصلاحی موضوعات پر مبنی تھے۔ طاہر وزیر آبادی نہایت وضع دار اور مجلسی قسم کے آدمی تھے۔ وہ ادبی، صحافتی اور سماجی دائرہ تعلقات کے نہایت متنوع تھے، اسی وجہ سے تمام ادبی، صحافتی اور سماجی حلقوں کے لوگ احباب ان سے محبت اور انکساری سے پیش آتے۔ کیونکہ وہ خود بھی محبت سے بھرپور آدمی تھے اور ساری زندگی چاہتیں دے کر محبتیں سمیٹتے رہے۔ اس حوالے سے مدثر اقبال بٹ بتاتے ہیں کہ ’’ وزیر آباد کی مٹی سے میرا رشتہ ماں بیٹے جیسا ہے۔ میں اس مٹی کا بیٹا ہوں اور ساری زندگی اسی کی محبت کا مزا لیتا رہا ہوں۔ اس مٹی کی خوشبو کو ہمیشہ میری سانسوں نے محسوس کیا۔ میں جب بھی وزیرآباد کا نام لیتا تو میرے سامنے وزیرآباد کی ایک ہنستی مسکراتی صورت طاہر وزیر آبادی کی آجاتی اور میں جب بھی وزیرآباد آتا تو میرا میزبان طاہر وزیر آبادی ہوا کرتا ۔ وہ میرے مشکل وقت کا ساتھی تھا، میری دھرتی کا ایک نیک بیٹا تھا، وہ میرا بھائی بھی تھا اور میرا دوست بھی۔‘‘ طاہر وزیر آبادی لسانی اعتبار سے اُردو اور پنجابی پر یکساں عبور رکھتے تھے۔ فکری حوالے سے وہ ایک محبِ وطن پاکستانی تھے جب کہ موضوعاتی زاویے سے ان کی شاعری کا کینوس بہت وسیع تھا۔ اپنے ارد گرد رونما ہونیوالے روزمرہ واقعات کو اپنے شعروں اورکالموں کی صورت میں پیش کرتے نظر آتے۔ ان کے پنجابی شاعری اورکالموں میں نہایت رنگارنگی پائی جاتی۔ حمد ونعت، نظم و غزل، طنز ومزاح، الغرض ہر میدانِ سخن میں رواں دواں تھے۔ ان کے نعتیہ کلام سے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں۔رحمت بھریا میم وی سانجھا طاہر وزیر آبادی کی شاعری میں پختہ کاری کے تمام اجزا اور جوہر موجود ہیں۔ انھوں نے چھوٹی بحر میں جو لفظی و معنوی کمالات دکھائے وہ اس بات کا حقیقی ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے شعری سفرکو خدا داد صلاحیتوں کے ساتھ طے کیا۔ وہ دورِ حاضر میں مفاد پرستی، منافقت اور ناہمواریوں کے دور کو دیکھ کر بہت دُکھی رہتے۔ ان کے قلم سے نکلنے والے الفاظ ہمیشہ حق و صداقت کی صدائیں بلندکرتے ہوئے جھوٹے اور مکار لوگوں کے چہروں سے نقاب اُٹھاتے۔ ان کی شاعری میں تصوف کا رنگ بھی نمایاں جھلکتا دکھائی دیتا ہے، جس کی خاص وجہ ان کے اندر وارث شاہ، بھلے شاہؒ، میاں محمدبخشؒ اور حق باہوؒ جیسے صوفیائے کرام سے محبت کا جذبہ موجود تھا، ان کی یہ محبت عقیدت کا روپ لیے کچھ اس طرح سے اظہار کرتی ہے کہ:طاہر وزیر آبادی کے پاس وسیع ذخیرہ الفاظ موجود تھے۔ جن کو وہ اپنی ذہنی و تخلیقی صلاحیتوں سے استعمال کرنے کا بہانہ ڈھونڈ لیتے تھے۔ انھوں نے بعض اشعار اتنی گہرائی سے کہے ہیں کہ پڑھنے والا ہر شخص اس کے آثار میں اُترکر ڈوب مرتا ہے۔ ایسے ہی کچھ اشعار شامل کرتا چلوں کہ:ظالم سوچ دے ہتھوں زندہ ساڑے گئےساہواں دا اتبار نہ جندےطاہر وزیرآبادی کے اندر ایک سچا اورکھڑا شاعر موجود تھا ایسا شاعر اور انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، انھیں سب پیار سے ’’ لالہ جی‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتے، مجھ خاکسارکا جب پہلا پنجابی شعری مجموعہ ’’بھلیاں راہواں‘‘ اشاعت پذیر ہُوا تو اس پر انھوں نے بہت جامعہ مضمون لکھا جو بعد میں پنجابی اخبار ’’بھلیکھا‘‘ میں شایع بھی ہُوا۔ ان کی سے میری پہلی ملاقات ’’بھلیکھا‘‘ اخبار کے زیر اہتمام آل پاکستان پنجابی مشاعرہ آرٹس کونسل گوجرانوالہ میں ہوئی۔ میدان سخن کا یہ منفرد شاہسوار، مشاہدات کی تصویر کو اپنے لفظوں میں پیش کرنیوالا فن کار، ادب کی دنیا سے جُڑے لکھاریوں کا خدمت گزار، چاہتیں بکھیر کر محبتیں سمیٹنے والا فنکار، چلتی سانسوں کو راہِ ادب میں وقف کرنے والا جی دار، صنف شعر و سخن سے جنون کی حد تک پیار کرنے والا قلمکار، عاجزی اور انکساری کا روشن مینار اور شہر وزیر آباد کا شہزادہ طاہر وزیر آبادی محبت کے عالمی دن 14 فروری 2020 کو اپنے چاہنے والوں کی محبتیں، عزتیں اور شہرتیں سمیٹ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کی نمازِ جنازہ سجادہ نشین علی پور سیدہ شریف کے صاحبزادہ حافظ پیر سید کرامت علی حسین نے پڑھائی کیونکہ طاہر وزیرآبادی 1982 میں حضور قبلہ عالم پیر علی حسین شاہ صاحب کے دستِ حق پر بیعت کا شرف حاصل کیا تھا۔ ’’ لالہ طاہر وزیر آبادی‘‘ کی وفات پر نہ صرف وزیرآباد ویران ہوا ہے بلکہ سارا شہر ویران ہو گیا ہے۔ خالد شریف کے اس ضرب المثل شعر کے مصداق
ادب شاعری وزیر آباد طاہر وزیر آبادی LALAH TAHIR WAZIRABADHI پنجابی شاعری نعتیہ کلام ہم دکھ شہری و ادبی گھر
پاکستان تازہ ترین خبریں, پاکستان عنوانات
Similar News:آپ اس سے ملتی جلتی خبریں بھی پڑھ سکتے ہیں جو ہم نے دوسرے خبروں کے ذرائع سے جمع کی ہیں۔
ایف بی آر کی جانب سے گاڑیوں کی خریداری کا معاملہ سینیٹ پہنچ گیامعاملہ وزیر خزانہ کا تھا، وزیر دفاع بیچ میں آ گئے، سینیٹر فیصل واواڈا نے توجہ دلاؤ نوٹس پیش کر دیا۔
مزید پڑھ »
احتجاج کی صورت میں اسرائیلی وزیر اعظم کا مجسمہ میکسیکو میں توڑ دیا گیامیکسیکو میں ایک احتجاجی کارکن نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو کا ایک موم کا مجسمہ توڑ دیا۔
مزید پڑھ »
دشمن کی سازشوں کا منہ توڑ جواب، وزیر اعظم شہباز شریف کا اہم اعلانوزیراعظم شہباز شریف نے نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں کہا کہ دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے اور ملک کے خلاف سازشیں بُنی جا رہی ہیں. انہوں نے کہا کہ ان سازشوں کا مکمل خاتمہ کرنا ہمارا فرض ہے۔
مزید پڑھ »
داخلہ وزیر کا کہنا: قومی پولیس اکیڈمی کو یونیورسٹی کا درجہ دیا جائےداخلہ وزیر محسن نقوی نے قومی پولیس اکیڈمی کو یونیورسٹی کا درجہ دینا ضروری قرار دیا ہے۔ انہوں نے اکیڈمی کے دورے کے دوران مختلف سہولیات کا جائزہ لیا اور ہاسٹل اور Messing کا دورہ کیا۔ انہوں نے ہدایت کی کہ قومی پولیس اکیڈمی کی再編成 تین مہینوں میں مکمل کر دی جائے اور اکاڈمی کے لیے دنیا کی کسی قابل رکھ رکنٹ کی طرف سے ایک نیا ماڈل تیار کیا جائے۔ محسن نقوی نے کہا کہ پولیس فاونڈیشن قومی پولیس اکیڈمی کو 250 ملین روپے کا چیک دیے گا۔ ان کا مقصد اکیڈمی کو مالی لحاظ سے خود مختار ادارہ بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس اکیڈمی میں تعینات افسران کو بہتر تنخواہیں اور سہولیات دی جائیں گی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ اے ایس پیز کو دی جانے والی کورسز کو جدید ضروریات کے مطابق تبدیل کرنا ہوگا اور ٹارگریٹنگ، پولیس ریوولٹیشن، سائبر اور دیگر فیلڈز میں کورسز شروع کیے جائیں گے۔ اسی سلسلے میں وزیر داخلہ کی زیر صدارت قومی پولیس اکیڈمی کی دوبارہ تشکیل کی ایک ہائی لیول میٹنگ بھی ہوئی۔ وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ وہ قومی پولیس اکیڈمی کو ایک بین الاقوامی معیار کا ادارہ بنانا چاہتے ہیں تاکہ دوسرے ممالک کے افسر اکیڈمی میں تربیت کے لیے آ سکیں۔
مزید پڑھ »
فاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا اعلان: پاکستان غیر اعلانیہ جنگ کا شکارفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان کو غیر اعلانیہ جنگ کا سامنا ہے جس کا مقصد ملک میں اندورنی انتشار اور عدم استحکام پیدا کرنا ہے، سائبر اسپیس ایک نیا محاذ ہے جس کے دفاع کیلئے ہر ملک تگ ودو کررہا ہے، اور عمران نیازی کی جانب سے لوگوں سے رسیدیں مانگنے اور قومی خزانے کے بجائے اپنے دوست کے اکاونٹ میں جمع کرانے کی ہر آنکھوں سامنے ہے۔
مزید پڑھ »
وزیر اعظم کا انسانی اسمگلنگ میں ملوث عناصر کو نشان عبرت بنانے کا حکمانسانی اسمگلروں کی جائدادوں اور اثاثوں کی ضبطگی کے لئے فوری قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے، شہباز شیریف
مزید پڑھ »