پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان کشیدگی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماوں نے حکومت کے ساتھ جاری رویے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے گرفتار نواز شریف کے قریبی رفیق اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے ملاقات کی۔ ملاقات میں حکومتی کمیٹیوں اور پیپلز پارٹی کے درمیان رابطے پر اتفاق ہوا۔ ان دونوں پارٹیوں کے درمیان کشیدگی کی اہم وجوہات میں سندھ کے پانی کے مسئلے، مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہ ہونا، بلوچستان کے تحفظات، اور پنجاب حکومت کے اقدامات شامل ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت صرف پیپلز پارٹی کی مرہون منت ہے اور پیپلز پارٹی کے رہنما متعدد بار وفاقی حکومت کے پیپلز پارٹی کے ساتھ جاری رویے پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں جس پر ایک بار پھر پی پی چیئرمین بلاول بھٹو کے پاس جا کر مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف کے سب سے زیادہ قریبی رفیق اور عزیز وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو ملاقات کرنا پڑی اور دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں پیپلز پارٹی اور حکومتی کمیٹیوں کی ملاقاتوں پر اتفاق کیا گیا۔ جس سے یوں لگتا ہے کہ حکومتی کمیٹیوں اور پیپلز
پارٹی کے درمیان رابطے اور مشاورت نہیں ہو رہی ہے اور (ن) لیگی حکومت تن تنہا ہی اہم فیصلے کر رہی ہے اور اپنی سب سے اہم حلیف پیپلز پارٹی سے مشاورت کرتی ہے نہ بلاول بھٹو کو اعتماد میں لیتی ہے جس کا اظہار بلاول بھٹو بھی کرتے رہتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ تحفظات کے باوجود حکومت کی حمایت جاری رکھیں گے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی سندھ حکومت کے بعض معاملات پر وزیر اعظم کو خط لکھا ہے جس میں سندھ کے پانی کے مسئلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بلاول بھٹو نے بھی مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس مقررہ آئینی مدت میں منعقد نہ کرنے کی شکایت کی ہے۔ انھوں نے حال ہی میں وزیر اعلیٰ بلوچستان سے گفتگو میں یقین دلایا ہے کہ بلوچستان کے وفاق سے متعلق امور متعلقہ فورم پر اٹھائیں گے اور وفاقی حکومت کو بلوچستان کے تحفظات سے بھی آگاہ کیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کو پنجاب حکومت سے بھی بہت شکایات ہیں اور اس کا موقف ہے کہ پنجاب میں جو پاور شیئرنگ فارمولا دونوں پارٹیوں میں طے پایا تھا اس پر عمل نہیں کیا جا رہا۔ پنجاب حکومت کے اقدامات پر پی پی سے تعلق رکھنے والے گورنر پنجاب بھی تنقید کرتے رہتے ہیں جس کا جواب پنجاب حکومت اس طرح دیتی ہے جیسے وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہو اور گورنر پنجاب حلیف ہیں
سیاسی کشیدگی حلیف حلقات انٹرا پارٹی کشیدگی پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن)
پاکستان تازہ ترین خبریں, پاکستان عنوانات
Similar News:آپ اس سے ملتی جلتی خبریں بھی پڑھ سکتے ہیں جو ہم نے دوسرے خبروں کے ذرائع سے جمع کی ہیں۔
پی ٹی آئی اور مینڈیٹ چوری کا الزامپی ٹی آئی نے فروری 2024 کے الیکشن کے بعد مینڈیٹ چوری کا الزام لگا کر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومت کی مخالفت کی۔
مزید پڑھ »
پاکستان مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے درمیان کشیدگیپنجاب میں حکومت PML-N نے Murree میں منعقدہ عام جرائگا میں حکومت کے خلاف تقریر کرنے والے PPP کے رکنوں کے خلاف مقدمات درج کروائے ہیں۔ کچھ PPP رہنماؤں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اس دوران PML-N نے PPP کے تنازعہ حل کمیٹی سے وقت لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے پرنسپل کے خدشات کو حل کرنے کا یقین دلایا ہے۔
مزید پڑھ »
پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان نیا محاذ کھل گیاپیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) کی لیگ حکومت پر مسلسل آئین شکنی کا الزام عائد کر رہی ہے
مزید پڑھ »
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی کوارڈینیشن کمیٹی کے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئیمسلم لیگ ن اتحادی حکومت کے معاملات کو آگے نہیں بڑھانا چاہتی تو ہم اپنا آئندہ کا لائحہ عمل خود طے کر لیں گے
مزید پڑھ »
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی کوارڈینیشن کمیٹی کا اجلاسپیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی کوارڈینیشن کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں مختلف امور پر اتفاق ہوا۔
مزید پڑھ »
راجا پرویز اشرف کا کہنا: پی ٹی آئی کو مذاکرات سے زیادہ امیدیں نہیںپیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر و سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کو حکومت کے ساتھ مذاکرات سے زیادہ امیدیں نہیں رکھنی چاہئیں۔ انہوں نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے مذاکرات کا آغاز نیک شگون قرار دیا اور کہا کہ پنجاب میں کچھ اختیارات حاصل کرنے کیلئے پیپلز پارٹی ن لیگ کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔ راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ملک بچانے کی خاطر حکومت سازی میں ن لیگ کی حمایت کی ہے۔
مزید پڑھ »