’ٹی ڈبلیو اے کی پرواز 85 دنیا کی طویل ترین اور سنسنی خیز ہائی جیکنگ کی واردات‘
امریکی ہوائی اڈوں پر ناکافی سیکیورٹی ہائی جیکنگ کی وارداتوں کی بڑی وجہ تھی۔
جہازوں کو تباہ کرنے کی وارداتیں پیش نہیں آئی تھیں۔ مسافر جہازوں کو اغوا کر کے صرف کیوبا جانا چاہتے تھے اور وہ جہاز کو تباہ کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ کافی بحث کے بعد مینیکیلو نے کپتان کو ڈینور میں اترنے کی اجازت دی تاکہ وہ امریکہ کے مشرقی حصہ تک پہنچنے کے لیے ایندھن بھروا سکیں۔ وہ پرسکون ہوتے دکھائی دے رہے تھے اور حیران کن طور پر ان کا رویہ لچک دار تھا۔ جہاز سے اترتے وقت جم فریڈلے کو خیال آیا کہ وہ 'ہیلوئن' کا لباس تو جہاز پر ہی بھول آئے ہیں اور انھوں نے واپس جا کر اسے لانے کی درخواست کی جسے ہائی جیکر نے بڑے اطمینان سے مان لیا۔
اس کا انھیں بہت فائدہ ہوا۔ جب وہ ایف بی آئی کو اپنے بیانات دینے کے بعد باہر آئے تو انھیں فوٹو گرافروں نے گھیر لیا۔ ایئرپورٹ پر موجود اخباری رپورٹروں نے ان سے چیخ چیخ کر سوالات کرنا شروع کر دیئے۔ انھیں اس سے پہلے کبھی ذرائع ابلاغ نے اتنی توجہ نہیں دی تھی۔ جہاز کے لینڈ ہونے کے چند منٹ بعد ہی جب اس میں ایندھن بھرنا شروع کیا گیا تو ایف بی آئی کے اہلکار خاموشی سے جہاز کی طرف بڑھنے لگے۔ کک نے ایک ایجنٹ سے بات کی جو چاہتا تھا کہ ہائی جیکر کاک پٹ کی کھڑکی کے قریب آ کر بات کریں۔
ٹی ڈبلیو اے کے دو کپتان بل ولیم اور رچرڈ ہیسٹنگ جن کا ہوا بازی کا 24 سال کا تجربہ تھا اور جنھیں بین الاقوامی پروازوں کی اجازت حاصل تھی وہ ایف بی آئی کے اہلکاروں کو پیچھے دھکیلتے ہوئے جہاز میں گھس آئے۔ جہاز کے کپتان کک نے بعد میں نیو یارک ٹائمز سے انٹریو میں کہا کہ ایف بی آئی کا منصوبہ تو ہمیں مروانے کا تھا۔
پچھتر کے قریب پولیس اہلکار اس کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ فوٹوگرافوں اور رپورٹروں کا جہاز سے محفوظ فاصلے پر رکھا جائے کہیں یہ نہ ہو کہ ہائی جیکر خوفزدہ ہو کر کوئی حرکت کر دے۔ انھوں نے کہا کہ شادی شدہ شخص کو کوئی بھی مارتے ہوئے سوچے گا جبکہ اس کے مقابلے میں کنوارے آدمی کو ہلاک کرتے ہوئے اسے زیادہ افسوس نہیں ہو گا۔
ولیم نے بعد میں بتایا کہ ہائی جیکر نے یہ پیش کش بھی کی کہ وہ روم میں لینڈ کرنے کے بعد عملے کو کسی ہوٹل لے جائیں لیکن ان کی اس پیش کش کو منظور نہیں کیا گیا۔ مینیکیلو ان سے بات کرنے کے لیے نکلے۔ دونوں سیڑھیوں سے نیچے اتر کر گاڑی کی طرف بڑھنے لگے۔ مینیکیلو کے ہاتھوں میں ابھی بھی بندوق تھی اور جہاز پر موجود عملے نے سکھ کا سانس لیا۔ وہ کئی گھنٹوں کے بعد ایک مرتبہ پھر آزاد تھے لیکن وہ امید کر رہے تھے کہ ہائی جیکنگ کا اگلا مرحلہ بھی خیر خیریت سے گزر جائے گا۔ مینیکیلو اور ان کے ساتھ اہلکار محفوظ رہیں گے۔
ہفتہ یکم نومبر ’آل سینٹ ڈے‘ پر ’سینچوری آف ڈوائن لو‘ کا چرچ لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ خوش لباس لوگوں کے اس اجتماع میں ایک نوجوان نکر اور بنیان پہنے الگ ہی نظر آ رہا تھا۔ مینیکیلو نے اپنی فوجی وردی اور بندوق پھینک کر چرچ میں پناہ لے لی تھی۔ ان کا چہرہ اب جانا پہچانا چہرہ تھا اور چرچ کے وائس ریکٹر ڈون پاسکیول سیلا نے انھیں پہچان لیا۔
اس کے بعد ٹی وی پر رافیلی کی تصویر آنا شروع ہوئی۔ ٹرنر نے بعد میں بی بی سی کو بتایا کہ وہ یہ خبر سن کر ہکا بکا رہ گئے۔ امریکی فوج میں نوجوان کی بھرتی کے لیے لاٹری کے ذریعے نام نکالنے کی سکیم شروع ہونے میں ابھی ایک مہینے باقی تھا اور ہزاروں کی تعداد میں نوجوان کیمونسٹوں کے خلاف جنگ کو جائز تصور کرتے ہوئے فوج میں شامل ہو رہے تھے۔مئی 1967 میں سترہ سالہ نوجوان سی ایٹل میں اپنے گھر سے نکلے جہاں اٹلی میں سنہ 1962 میں آنے والے زلزلے کے بعد ان کا گھرانہ آ کر آباد ہو گیا تھا۔
ٹرنر جو اب آئیوا میں مقیم ہیں انھوں نے بتایا کہ انھیں 49 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت اور مون سون کی بارشوں میں انتہائی دشوار صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ٹرنر نے بی بی سی کو بتایا کہ کوئی ایسی جگہ نہیں ملتی جہاں آپ کچھ سکون حاصل کر سکیں اور اپنے ذہن اور جسم کو ہم آہنگ کر سکیں۔ جہاز اغوا کرنے کے ایک دن بعد انھیں چوری کے جرم میں کورٹ مارشل کے لیے ایک فوجی عدالت کے سامنے پیش ہونا تھا۔
انھوں نے جرح کرتے ہوئے کہا کہ انھیں یقین ہے کہ اس نوجوان کے جرم کا فیصلہ کرتے ہوئے اٹلی کے جج اس بات کو ذہن میں رکھیں گے کہ کس طرح غریب کسان گھرانے کا ایک نوجوان جنگ کی بھینٹ چڑھ گیا۔ سنہ 1962 کے جس زلزلے میں مینیکیلو فیملی کا گاؤں تباہ ہو گیا تھا وہ تو صرف ایک پیش خیمہ تھا۔ اٹھارہ سال بعد جنوبی اٹلی میں چھ اعشاریہ نو شدت کا ایک زلزلہ آیا اور اس کا محور سنہ 1962 کے زلزلے سے صرف 20 میل دور تھا۔
انھوں نے کہا کہ وہ اسی علاقے میں پیدا ہوئے تھے اور ان کی زندگی میں آنے والے مسائل زلزلے سے ہی شروع ہوئے تھے۔ فروری سنہ 1985 میں ان کی اہلیہ شنزیا حاملہ ہوئیں جو ان کا دوسرا بچہ تھا۔ زچگی کے دوران جب بچے کی ولادت کے لیے انھیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا تو ڈاکٹروں کی غفلت کی وجہ سے زچہ بچہ دونوں کی وفات ہو گئی۔ مینیکیلو جو پہلے ہی حکام سے بدظن تھے ان کا غصہ اور بڑھ گیا۔ انھوں نے روم کے قریب ہونے والی ایک بین الاقوامی طبی کانفرنس کو نشانہ بنا کر اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کرانا چاہتے تھے۔مینیکیلو جب یہ منصوبہ بنا رہے تھے تو ان کی دوستی ایک ساتھی ٹونی سے ہو گئی۔ ٹونی نے انھیں...
ان کی سابق پلٹن جب ان کی سزا معاف کرانے کی کوشش کر رہی تھی انھوں نے فلائٹ ٹی ڈبلیو 85 کے مسافروں کو تلاش کرنے میں مدد کی درخواست کی۔سنہ دوہزار نو کے موسم گرما میں شارلین ڈیلمونیکو 35 برس فضائی کمپنی میں ملازمت کرنے کے بعد آٹھ سال پہلے ریٹائر ہو چکی تھیں۔ دو ہزار ایک میں ان کی ریٹائمنٹ کے ایک سال کے اندر ہی ٹی ڈبلیو اے فضائی کمپنی کنگال ہونے کے بعد ختم ہو گئی تھی اور اسے امریکی ایئر لائن نے خرید لیا...
اگست 2009 میں ڈیلمونیکو 150 سو میل کا سفر طے کر کے میزوری میں برینسن پہنچے جہاں مینیکیلو کی سابق میرین پلٹن نے اپنے پرانے ساتھیوں سے ملنے کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا ہوا تھا۔
پاکستان تازہ ترین خبریں, پاکستان عنوانات
Similar News:آپ اس سے ملتی جلتی خبریں بھی پڑھ سکتے ہیں جو ہم نے دوسرے خبروں کے ذرائع سے جمع کی ہیں۔
آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے قانون سازی حکومت کے لئےاعزاز ہوگا، اٹارنی جنرلاسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن)اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور علی خان نے کہاہے کہ آرمی
مزید پڑھ »
درخت رات کو آکسیجن دیتے ہیں جوش خطابت میں وزیراعظم کی زبان پھسلنے سے ان کے ...'درخت رات کو آکسیجن دیتے ہیں' جوش خطابت میں وزیراعظم کی زبان پھسلنے سے ان کے منہ سے نئی تھیوری نکل گئی
مزید پڑھ »
آج ان کو بہت مایوسی ہوئی ہوگی عدالت کے فیصلے کے بعد وزیراعظم بھی میدان میں ...اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ کی طرف سے قانون سازی کے لیے 6 ماہ کا وقت ملنے
مزید پڑھ »
پنجاب میں خواتین سے زیادتی اور قتل کے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ - ایکسپریس اردورواں سال 10 ماہ میں غیرت کے نام 149 خواتین کو قتل کرنے اور تیزاب پھینکنے کے 36 واقعات رپورٹ ہوئے، رپورٹ
مزید پڑھ »