آج سے سو سال پہلے، ایشیا، افریقہ اور یورپ کے کئی خطوں پر صدیوں کے عثمانی کنٹرول کے بعد خلافت عثمانیہ کو ختم کر دیا گیا۔ مارچ 1924 کو ترک پارلیمنٹ نے خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے پر اتفاق کیا۔ ترک قانون سازوں نے خلافت عثمانیہ کو کیوں ختم کیا؟ کیا عبدالحمید اور ان کے پیش رو سلطان یا خلیفہ تھے؟ اس وقت عثمانی سلطان نے اس میں کیا کردار ادا کیا...
سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان عبدالحمید ثانی سے متعلق کچھ تحریروں میں کہا گیا ہے کہ وہ اوپرا اور تھیٹر کے فن سے محبت کرنے والے تھے۔ وہ دورِ عثمانیہ کے موسیقاروں اور مصنفین کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ فن پاروں کے درد ناک انجام کو خوش کن انجام سے بدل دیں۔
معاویہ بن ابی سفیان کے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی اسلام میں عہد کی حکمرانی رشتہ داروں کو منتقل ہونے لگی۔ جیسا کہ قدیم اور قرون وسطیٰ کے بہت سے انسانی معاشروں میں ہوتا تھا۔ اس طرح عباسیوں کی حاکمیت کی کمزوری برسوں کے ساتھ واضح ہوتی گئی۔ ہارون الرشید کی وفات کے تقریباً 130 سال بعد جو عباسی خلفا کے اقتدار کی طاقت کی علامت تھے بغداد کے محافظوں نے ظالم حکمران کو معزول کر دیا۔ خلیفہ نے اس کی آنکھیں نکال لیں اور برسوں تک قید میں رکھنے کے بعد انھیں رہا کیا گیا۔ جس کے بعد انھوں نے ایک ایسی زندگی گزاری جسے اس حد تک دکھی بتایا گیا ہے کہ وہاں کے تاریخی بیانات کے مطابق وہ ’بغداد کی مساجد کے سامنے بھیک مانگ رہے...
برطانوی مصنف تھامس آرنلڈ اپنی کتاب ’خلافت‘ میں کہتے ہیں کہ درحقیقت بہت سے بادشاہ اور شہزادے مختلف خطوں میں اپنے لیے خلافت کے حق کا دعویٰ کیا۔ سلیم اول کے جانشینوں نے سلطان کے لقب کی پابندی برقرار رکھی لیکن ان میں سے کچھ نے دوسرے اضافی القابات کے ساتھ خلیفہ کا لقب بھی استعمال کیا جو اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ عثمانی سلطان نے دنیا میں مسلمانوں کی اکثریت آباد سلطنت کی صدارت کی۔
تاہم جیسا کہ ان کے پیشروؤں کے ساتھ ہوا عثمانیوں کو اسلامی دنیا کے حریفوں کی طرف سے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں شاید سب سے نمایاں فارس کے صفوی تھے۔ جنھوں نے عثمانیوں کے ساتھ طویل محاذ آرائی کی لیکن عثمانی کئی صدیوں تک پوری اسلامی دنیا کی سب سے بڑی طاقت رہے۔ انیسویں صدی کی آمد کے ساتھ ہی خاص طور پر مغربی طاقتوں اور پڑوسی روس کے سامنے عثمانی فوج کی نمایاں کمی کی روشنی میں سلطنت عثمانیہ کے اندر سے آوازیں اٹھنے لگیں اور بڑی اصلاحات کا مطالبہ کیا گیا۔
مصر تین سال تک نپولین اور اس کے سپاہیوں کے قبضے میں رہا اور فرانس نے واپس آ کر الجزائر اور پھر تیونس پر دہائیوں کے بعد قبضہ کر لیا۔ لیکن یہ اصلاحات سلطنت عثمانیہ کی مسلسل مشکلات کو روکنے میں ناکام رہیں یہاں تک کہ استنبول کے حکام نے سنہ 1875 میں ریاست کے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی میں ناکامی کا اعلان کر دیا۔اس ماحول میں عبدالحمید دوم نے سنہ 1876 میں عثمانی سلطان کا عہدہ سنبھالا اور ایک لبرل آئین کی منظوری اور پارلیمنٹ تشکیل دے کر اپنے دور کا آغاز کیا۔
اگرچہ سنہ 1881 میں تیونس پر فرانس کے قبضے اور سنہ 1882 میں برطانیہ کے مصر پر قبضے کے ساتھ عثمانی سلطنت کا زوال جاری رہا۔ لیکن عبدالحمید اس وقت عثمانی سلطنت کے اختیار کو سکڑنے کے عمل کو روکنے یا سست کرنے میں کامیاب رہے۔ بلغاریہ نے بھی سلطنت عثمانیہ سے اپنی آزادی کا اعلان کیا اور آسٹرو ہنگری سلطنت نے بوسنیا اور ہرزیگووینا کو اپنے ساتھ ملا لیا۔
جب کہ وفاق پرست عثمانی سلطان کو معزول کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ انھیں آزادی پسندوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جو مغربی طاقتوں یا روس کے ساتھ فوجی تصادم میں شامل نہ ہونے کے حامی تھے تاکہ سلطنت عثمانیہ مزید علاقے سے محروم نہ ہو۔ برطانیہ اور فرانس پر جوابی حملہ کرنے کی کوشش میں ترکوں اور ان کے جرمن اتحادیوں نے استنبول میں حکمراں اتھارٹی کے رجحانات سے بہت دور ایک نظریے کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا۔
اس تحریک نے ایک ایسے فوجی رہنما کے پیچھے اکٹھا ہونا شروع کیا جو مستقبل میں اہم کردار ادا کرنے والے تھے۔ وہ مصطفی کمال ہیں، جو بعد میں اتاترک کے نام سے مشہور ہوں گے۔ اس طرح ایک طرف اتاترک اور ترک قوم پرستوں اور دوسری طرف عثمانی سیاست دانوں کے مابین ایک بڑی تقسیم نظر آتی ہے۔ اس حد تک کہ استنبول کی ایک فوجی عدالت نے اتاترک کی غیر موجودگی میں انھیں سزائے موت سنا دی۔
’جیسا کہ یہ ایک جدید اور مہذب ریاست ہوگی۔ ترکی کے عوام مضبوط ہوں گے انفرادی خیانت کے خطرے کے بغیر اپنی انسانیت اور شناخت کا احساس کریں گے۔ دوسری طرف خلافت کا ادارہ عالم اسلام کی روح اور ضمیر کی مرکزی کڑی کے طور پر ابھرے گا۔‘ اتاترک نے اصرار کیا کہ نئے خلیفہ اپنی حلف برداری کی تقریب کے دوران ایک لمبا چوغہ پہنیں نہ کہ شاہی لباس، پگڑی یا کوئی فوجی لباس۔جولائی سنہ 1923 میں معاہدہ لوزان اختتام پذیر ہوا ، جس نے جدید ترکیہ کی شکل کا تعین کیا۔اس طرح اتاترک نے ترکی میں سب سے اہم سیاسی عہدہ سنبھال لیا جبکہ خلیفہ عبدالمجید دوم استنبول میں اپنے محل میں بغیر کسی طاقت کے رہے۔دسمبر سنہ 1923 میں ترک اخبارات نے ہندوستانی مسلم رہنماؤں کے دستخط شدہ ایک خط لیک کیا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ ترک حکومت خلافت کی حیثیت برقرار رکھے۔...
حکومت کے وزیر انصاف سید بے نے کھڑے ہو کر کہا کہ ’خلافت عارضی طاقت کا مترادف ہے۔ اقتدار سے علیحدگی کے بعد اس کی بقا کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔‘
پاکستان تازہ ترین خبریں, پاکستان عنوانات
Similar News:آپ اس سے ملتی جلتی خبریں بھی پڑھ سکتے ہیں جو ہم نے دوسرے خبروں کے ذرائع سے جمع کی ہیں۔
سانپ کے کاٹے کا بروقت علاج کیسے ممکن ہوا؟زہریلا سانپ کاٹ لے تو اس انسان یا جاندار کے پاس زندہ رہنے کیلئے چند سانسیں ہی بچتی ہیں، خاص طور پر اگر یہ سانپ کسی خطرناک نسل کا ہو تو
مزید پڑھ »
سانپ کے کاٹے کا بروقت علاج کیسے ممکن ہوا؟زہریلا سانپ کاٹ لے تو اس انسان یا جاندار کے پاس زندہ رہنے کیلئے چند سانسیں ہی بچتی ہیں، خاص طور پر اگر یہ سانپ کسی خطرناک نسل کا ہو تو
مزید پڑھ »
سانپ کے کاٹے کا بروقت علاج کیسے ممکن ہوا؟زہریلا سانپ کاٹ لے تو اس انسان یا جاندار کے پاس زندہ رہنے کیلئے چند سانسیں ہی بچتی ہیں، خاص طور پر اگر یہ سانپ کسی خطرناک نسل کا ہو تو
مزید پڑھ »
قاتل نے لاش کہاں چھپائی؟ 54 سال بعد اعترافقاتل نے آخرکار 54 سال بعد اس بات کا اعتراف کرلیا کہ اس نے عورت کو قتل کرنے کے بعد اسکی لاش کو کہاں دفن کیا تھا۔
مزید پڑھ »
بٹر چکن کھانے کے بعد مکینک موت کے منہ میں چلا گیابھارتی ریستوران سے بٹرچکن منگا کر کھانے والے مکینک کی ایک ہفتے بعد ہی موت ہوگئی، خاندانی ذرائع نے اس بات کا انکشاف کیا۔
مزید پڑھ »
گوجرانوالہ کے نوجوان کو توہینِ مذہب کے الزام پر سزائے موت: ’میں نے تو مدارس سے فتوے بھی لے کر دیے مگر کسی نے ایک نہ سنی‘وسطی پنجاب کے شہر گوجرانوالہ کی ایک عدالت نے بدھ کو پیغمبرِ اسلام اور ان کی ازواج کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے، قرآن کی بے حرمتی کرنے اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے الزامات پر بائیس سالہ طالبعلم کو سزائے موت کا حکم سنایا ہے۔ عدالت نے اسی مقدمے کے دوسرے ملزم، جن کی عمر 17 سال ہے، کو نابالغ ہونے کے باعث سزائے موت کے بجائے دو بار...
مزید پڑھ »